کیا ارشد شریف کی موت ایک حادثاتی قتل ہے؟
لیکن گاڑی پر گولیوں کے نشانات کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں۔
ان نشانات کی کہانی سننے سے پہلے آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ کینیا میں چھپ کر رہنے والے ارشد شریف کی تمام حرکات و سکنات کی پاکستان میں موجود دو الگ شخصیات سے مخبری کی جا رہی تھی++
ایک شخصیت وہ تھی جو اسے بحفاظت واپس پاکستان آنے پر رضامند کر رہی تھی اور اس کی پاکستان میں واپسی پر کسی قسم کی قانونی/انتقامی کاروائی کا سامنا نا ہونے کا یقین دلا رہی تھی۔ دوسری شخصیت جس کو اس کی پل پل کی موومنٹ کی خبر مل رہی تھی وہ اس کو پاکستان میں واپس نہیں دیکھنا چاہتے تھے+
اور ارشد شریف کی مذکورہ پہلی شخصیت سے تعلقات میں پیش رفت کو اپنے لئے خطرناک سمجھ رہے تھے۔ بہرحال یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ ارشد شریف نادانستہ طور پر استعمال ہوا تھا اور اس کو اس بات کا بخوبی اندازہ بھی ہو چکا تھا۔ وہ ایک ایسے چنگل میں پھنس چکا تھا کہ ایک طرف کھائی تو دوسری طرف+
آگ والا معاملہ تھا۔ ان تفصیلات اور ثبوتوں سے پردہ پھر کبھی سہی، ابھی صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ارشد شریف کی موت حادثاتی قتل نہیں تھی ایک باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ تھی۔
پولیس نے ان کی گاڑی کو روکا۔ ڈرائیور نے جان بوجھ کر گاڑی نہیں روکی بلکہ کچے راستے سے گاڑی کو بھگانے کی کوشش کی۔ گاڑی+
میں موجود شخص اس حملے سے پہلے ارشد شریف کی گاڑی میں موجودگی اور پوزیشن واضح کر چکا تھا۔ گاڑی کے ڈرائیونگ سائیڈ والے اگلے ٹائر کو گولی مار کر برسٹ کیا گیا۔ پیچھے سے پیسنجر سائیڈ پر فائرنگ کی گئی۔ پچھلی سکرین کے معائنہ کرنے پر نظر آئے گا کہ دو گولیاں بالکل سیدھے رخ پر پیسنجر پر ++